One Step Towards Community Building

"We were studying in the ninth grade in 1988, and at that time, the school uniform consisted of camel-colored trousers, a shirt, and white shoes.

The headmaster was very strict about uniforms, so all students came wearing uniforms except for two who were poor.

One morning, during the assembly, a metric student named Bikhoomal was standing in the assembly line without a uniform. As soon as the headmaster noticed him, he grabbed Bikhoomal by the collar and took him outside, very angry. While looking at the headmaster's anger, Bikhoomal said firmly,

"Sir, please listen to me... Please listen to me.

My father is a poor man, where can he get me a uniform and shoes from?

Don't punish me, I won't come to school from tomorrow."

Headmaster, Mr. Ghulam Hyder Khokhar, let him go and then stood on the stage, addressing all the students. He said that after the assembly, Bikhoomal would come to each class. You should give him the money you have for the day.

I used to get one rupee as pocket money, so I thought, 'I won't eat samosas today, I'll give this money to Bikhoomal.'

We just reached in class and the class teacher, Mr. Faqir Muhammad Hayat Hissbani, came to our class. A little later, Bikhoomal got permission and entered our class.

In his hands, he had some one-rupee notes and some coins, which he might have collected from his classmates.

Mr. Faqir Muhammad Hayat Hissbani was very angry. He told all of us that no one should give him money, and while looking at Bikhoomal, he said in anger, "Do you think begging is a lifelong profession?

If you get into the habit of begging even once, you will spend your whole life begging.

Go back to your class, and whoever gave you money, return it. I will get you the uniform."

Bikhoomal went back to his class on Mr. Faqir Muhammad Hayat Hissbani's instructions and returned the money to his classmates.

Mr. Faqir Muhammad Hayat Hissbani asked, "What work can you do in the evening?"

Bikhoomal replied, "My father is a cobbler; I can polish shoes and take care of boots, but I don't have money to buy equipment."

Mr. Hissbani asked, "How much money do you need?"

He replied, "I need one hundred and fifty rupees for toolkit, including brushes and other items. Everything will be included in it."

Mr Hissbani put his hand in his pocket, counted one hundred and fifty, and said, "This is a loan. You must repay me seven rupees every week."

After that, he asked me for a notebook, tore three pages from it. He started writing something on those three pages and handed them back to Bikhoomal, saying, "Give this letter to Rashid Panjabi. He will give you clothes, and you will repay him one rupee daily. The second letter is for Khalid Manji; he will give you new shoes, and you will repay him one rupee daily. The third letter is for Yusuf Darzi; he will sew your uniform, and you will repay him one rupee daily. You must earn at least four rupees extra to pay off the loan, and then you must progress through your hard work.

Bikhoomal made a promise and left. Later, Mr. Hissbani asked us to always get our shoes polished and boots taken care of by Bikhoomal.

Time passed quickly, and 12 years blinked by.

In 1999, there was a farewell party for the students of the tenth grade at High School Korangi. Invitations were also sent to the respected citizens of the city along with the teachers.

Bikhoomal, honorable distinguished guest, General Manager of flourmill was invited to give a speech in front of the respected citizens of the city. He stood on the stage wearing a cotton suit, and with tears in his eye as he narrated the story of 1988, when he was saved from begging by a compassionate teacher named Faqir Muhammad Hayat Hissbani.

Nowadays, under the name of charity, we are creating permanent beggars. For its solution, a strategy just like Faqir Muhammad Hayat Hissbani is needed."

‏" ہم 1988 میں جب نویں کلاس میں پڑھتے تھے ، اس وقت اسکول یونیفارم میں اونٹ کے رنگ کی شلوار قمیض اور سفید جوتے ہوتے تھے ۔

ہیڈ ماسٹر صاحب یونیفارم کے معاملے میں بہت سختی سے پیش آتے تھے اس لئے تمام طلباء یونیفارم پہن کر آتے تھے سوائے دو ایک کے جو غریب تھے۔

ایک دن صبح کی اسمبلی کے دوران میٹرک کے طالب علم بیکھو مٙل بغیر یونیفارم کے اسمبلی کی قطار میں کھڑا تھا ، جیسے ہی ہیڈ ماسٹر کی نظر اس پر پڑی بہت ہی غصے میں بیکھو مٙل کو کالر سے پکڑ کر باہر لیکر آیا ، ہیڈ ماسٹر کا غصہ دیکھتے ہوئے بیکھو مل زور زور سے کہنے لگا

سائیں میری بات سنیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سنیں

میرا باپ باسو مل غریب آدمی ہے وہ مجھے کہاں سے یونیفارم اور جوتے لیکر دے ؟

مجھے آپ ماریں نہیں میں کل سے اسکول نہیں آؤں گا ۔

ہیڈ ماسٹر استاد غلام حیدر کھوکھر نے اسے چھوڑ دیا اور اسٹیج پر چڑھ کر تمام طلباء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کے بعد بیکھو مٙل ایک ایک کلاس میں آئے گا ، آج آپ کو جو خرچی ملی ہے وہ آپ بیکھو مل کو دے دینا تاکہ وہ یونیفارم خرید کر سکے۔

میرے پاس حسب معمول آٹھ آنے جیب خرچ ملتا تھا سوچا آج کے دن سموسہ نہیں کھاؤں گا وہ میں بیکھو مل کو دے دوں گا ۔

کلاس میں ابھی بیٹھے ہی تھے کہ کلاس کے ٹیچر استاد فقیر محمد حیات ہسبانی کلاس میں آ گئے ، تھوڑی دیر بعد بیکھو مٙل بھی استاد سے اجازت لیکر ہماری کلاس میں داخل ہوا ۔

اس کے ہاتھ میں ایک ایک روپے کے چند نوٹ اور کچھ سکّے تھے جو شاید اس نے اپنی کلاس سے جمع کئے تھے ۔

استاد فقیر محمد حیات ہسبانی بہت غصے میں تھے ہم سب کو منع کیا کہ کوئی بھی اس کو پیسے نہیں دے گا اور بیکھو مٙل کی جانب دیکھتے ہوئے غصے میں کہا کہ ڈوب نہیں مرتے جو بھیک مانگتے پھرتے ہو ۔

کیا غربت کی آڑ میں ساری زندگی بھیک مانگتے پھرو گے ؟

واپس اپنے کلاس میں جاؤ اور جن جن سے پیسے لئے ہیں ان کو واپس کر کے آؤ میں تمہیں یونیفارم لیکر دوں گا

بیکھو مٙل استاد کے کہنے پر واپس اپنی کلاس میں گیا اور سب کو ان کے پیسے واپس کر کے آ گیا ۔

استاد فقیر محمد حیات ہسبانی نے پوچھا کہ شام کے وقت کون سا کام کر سکتے ہو ؟

بیکھو مٙل نے جواب دیا کہ میرا باپ موچی ہے ، میں بوٹ پالش کرنا اور جوتوں کی مرمت کا کام کر سکتا ہوں مگر میرے پاس سامان خرید کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔

استاد نے پوچھا کتنے پیسے چاہئے ہونگے ؟

اس نے کہا ایک لکڑی کی پیٹی اور چند برش ، پالش وغیرہ سب ملا کر کوئی ڈیڑھ سو روپے چاہئے ان میں سب سامان آ جائے گا ۔

استاد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ڈیڑھ سو روپے گن کر دیئے اور کہا کہ یہ ادھار ہے ، تم مجھے روز کے حساب سے ہر ہفتے سات روپے واپس کرنا۔

اس کے بعد مجھ سے کاپی مانگی اور اس کے تین کورے صفحات پھاڑ کر نکال لئے اور ان پر کچھ لکھنے لگے تینوں چٹھیاں بیکھو مٙل کو دیتے ہوئے کہا ایک چٹھی رشید پنجابی کو دینا وہ تمہیں کپڑا دے گا اور تمہیں ایک روپے روزانہ کے حساب سے اس کا قرض واپس کرنا ہے ، دوسری چٹھی خالق منگی کو دینا وہ تجھے نئے جوتے دے گا اسے بھی ایک روپیہ روز کے حساب سے قرضہ واپس کرنا ہے ، یہ تیسری چٹھی یوسف درزی کو دینا وہ تمہیں یونیفارم سی کر دے گا اسے بھی ایک روپے روزانہ دینے ہیں، چار روپے قرضہ اتارنے کیلئے تمہیں ہر صورت میں اتنا کمانا ہیں تاکہ تم قرضہ چکا سکو اور اسے کے بعد تمہیں اپنی محنت کے ذریعے آگے بڑھنا ہے

ایک بار بھیک مانگنے کی عادت پڑ گئی تو ساری زندگی بھیک مانگتے ہی گزرے گی

بیکھو مٙل وعدہ کر کے چلا گیا بعد میں استاد نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ اپنے جوتوں کی مرمت اور بوٹ پالش ہمیشہ بیکھو مٙل سے کروایا کریں

وقت تیزی سے گزر گیا 12 سال پلک جھپکتے گزر گئے

1999 میں ہائی اسکول کرونڈی میں دسویں کلاس کے طلباء کی الوداعی پارٹی ہو رہی تھی ، استادوں کے ساتھ شہر کی معززین کو بھی دعوت تھی۔

تقریر کرنے کیلئے شہر کی ایک بڑی فلور مل کے معزز جنرل منیجر بیکھو مٙل کو دعوت دی گئی ، کاٹن کے سوٹ میں ملبوس ، ماتھے پر ری بین کا چشمہ رکھے اپنی تقریر میں اسی اسکول میں پیش آئے 1988 کا قصہ سناتے ہوئے زار و قطار روتے ہوئے اسٹیج پر بیٹھے اپنے استاد فقیر محمد حیات ہسبانی کے پیروں کو چھوتے ہوئے بتایا کہ کس طرح ایک کامل استاد نے مجھے بھیک مانگنے سے بچایا اور محنت کا سبق دیا ۔

آج کل مدد کے نام پر جو بھیک بانٹی جا رہی ہے, اس سے ھم مستقل بھکاری پیدا کئے جا رہے ہیں ، اس کی تصیح کے لئے بھی کسی استاد فقیر محمد حیات حیسبانی جیسا مرد قلندر درکار ھے"

(محترم محمد ایوب قمبرانی کی سندھی تحریر کا اردو ترجمہ)

Comments

Popular posts from this blog

Profile Mujahid Hussain

100 Mouzo 500 Dastan - 400 Stories English Translated in the following 4 volumes

حقیقی طاقت